Saturday, 12 April 2014

پاکستانی ملت کو چاہئے کہ شہید باقرالصدرؒ کو اپنے لئے رول ماڈل بنائیں۔

مورخہ 10اپریل 2014کو حوزۂ علمیہ جامعۃ العروۃ الوثقیٰ میں شہیدِ مظلوم، شہیدِ راہِ حق حضرت آیت اللہ العظمیٰ شہید سید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ کی برسی کے حوالے سے مجلسِ عزاء منعقد کی گئی جس سے خطاب کرتے ہوئے سفیرِ انقلاب سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے فرمایا کہ شہید صدرؒ امتِ مسلمہ کا وہ نا شناختہ شدہ سرمایہ ہیں جنھوں نے مظلومیت کے ساتھ زندگی بسر کی اور انتہائی مظلومیت کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے ۔ استادِ محترم نے فرمایا کہ خدا وند تعالیٰ نے اس صدی کے اہلِ ایمان و اہلِ اسلام پر یہ خاص عنایت فرمائی ہے کہ اس عصر میں امام خمینی رضون اللہ علیہ اور شہید صدرؒ جیسی ہستیاں پیدا ہوئی ہیں ۔مومنین و مسلمین کو چاہئے کہ ان ہستیوں کی شناخت کروائیں اور رول ماڈل کے طور پر اپنائیں جنھوں نے پاکستان کے موجودہ حالات جیسے زمانوں کیلئے دین و قرآن مجید سے راہِ حل بناکر پیش کیا ہے ۔ بلا مبالغہ افکارِ شہید صدرؒ آج کے پاکستانی حالات کے تناظر میں اس ملت کو(چاہے سنی ہو یا شیعہ) اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ 
استادِ محترم نے فرمایا کہ نظامِ خلقت کے تحت بہت سارے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں جن کی نہ اہلِ زمین کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی زمین کو ضرورت ہوتی ہے لیکن شہید صدرؒ وہ ہستی ہیں جن کی زمین اور اہلِ زمین کو اشد ضرورت تھی ۔اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ زمین میں بہت سارے پودے روز پیدا ہوتے ہیں لیکن انسان کو ہر پودے کی ضرورت نہیں ہوتی بعض ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں جو انسان کیلئے نقصان دہ ہیں ، اسی طرح انسانوں میں بھی بعض انسان اُن ذہریلی جڑی بوٹیوں کی طرح ہوتی ہیں جن کو تلف کرنا ضروری ہوتا ہے اور پھر ان زہریلی جڑی بوٹیوں کے نقصان سے بچنے کیلئے کچھ ضروری مفید جڑی بوٹیوں کی ضرورت ہوتی ہیں۔پس زمین اور اہلِ زمین کو ایسے صالح انسانوں کی ضرورت ہے جن کا کام انسان کی ہدایت کرنا اور انسان کو ہر طرح کی گمراہیوں سے نکالنا ہے ۔ 
استادِ بزرگوار نے فرمایا کہ زمین و اہلِ زمین اور زمانے کیلئے نمرود، فرعون ، شداد اور یزید جیسے لوگ ہر جگہ ملتے ہیں لیکن ابراہیمؑ ، موسیٰ ؑ ا ور امام حسینؑ جیسی ہستیاں بہت کم ملتی ہیں لہٰذا زمانہ ایسی شخصیتوں کی تلاش میں رہتا ہے اور بعض کا منتظر ہوتا ہے کہ وہ آکر اپنی رسالت و فریضہ انجام دیں۔ جیسے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
قافلہ حجا ز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہیں تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات 
فرزندِ انقلاب نے فرمایا کہ امیرالمومنینؑ وہ ہستی تھے جنھیں رسول اللہ ﷺ کے بعد والے زمانے اورقیامت تک آنے والی نسلوں کو بہت ضرورت تھی لیکن اُس وقت کے لوگوں نے آپؑ کو نہیں پہچانا اور اُس نہ پہچاننے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ آغا نے مزید فرمایا کہ بعض شخصیات کی قدر نہ جاننے پر چند نسلوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن امیرالمومنینؑ جیسی شخصیت کو نہ پہچاننے کی قیمت صدیوں سے مسلمان نسلیں ادا کر رہی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں جو قیمت ادا ہو رہی ہے یہامیرالمومنینؑ جیسی ہستیوں کونہ پہچاننے کا نتیجہ ہے ۔ 
استادِ محترم نے مزید فرمایا کہ شہید صدرؒ مجازی علماء میں سے نہیں تھے کہ اعزازی طور پر عالِم کہا گیا ہو بلکہ حقیقتاً لفظِ عالم کے مستحق تھے جسے قرآن مجید نے عالم کہا ہے۔ چونکہ آپؒ کے اندر وہ ساری صفات تھیں یعنی علم بھی تھا، تقویٰ بھی تھا، فکر بھی تھی، فہم بھی تھی ، تدبر بھی تھا، عقل بھی تھی اور خوفِ خدا بھی تھا۔ قرآن مجید نے عالم کیلئے یہ چیزیں شرائط کے طور پر ذکر فرمائی ہیں ۔ استادِ بزرگوار نے مزید فرمایا کہ شہید صدرؒ انسان شناس بھی تھے اور جہان بین بھی تھے، لہٰذا شہیدؒ نے اپنی بصیرت اور الٰہی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت جہان بینی بھی پائی ہے۔ جو انسان جہان شناس و انسان شناس نہ ہو اور آکر کرسیِ امامت پر بیٹھ جائے تو وہ انسانیت کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے ۔ 
سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے مزید فرمایا کہ شہید صدرؒ نے عراق کیلئے نظامِ امامت کو نظام کے طور پر تجویز کیا تھا کہ عراق کیلئے فقط نظامِ امامت ہی راہِ حل ہے اور اُس کیلئے عملی کوششیں شروع کی تھیں اور ایک ایسے وقت میں یہ کوشش شروع کی تھیں کہ اُس وقت نجف کے حوزے میں سیاست کو شجرۂ ممنوعہ کہا جاتا تھا اور اُس وقت عراقی قوم بھی مایوس ترین قوم تھی ۔ آغا نے مزید فرمایا کہ شہیدؒ نے ایک نہضتی کام شروع کیا تھا لیکن وہ بعد میں تنظیمی شکل اختیار کر گیااور جوں ہی اُس کی تنظیمی شکل بن گئی شہیدؒ نے اُس سے جدائی اختیار کر لی اور اُس کی فعالیت کو ممنوع قرار دیا ، اس کے باوجود بھی اس کو انھوں نے جاری رکھا ، یہ وہی جماعت ہے جس کا آج اقتدار ہے ۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے بارے میں معروف ہے کہ شہید صدرؒ نے تأسیس کی تھی لیکن ایک حزب کے طور پر نہیں بلکہ ایک نہضت کے طور پر شروع کیا تھا لیکن بعد میں حزبی شکل اختیار کی اور آفات میں مبتلاء ہوئے چونکہ یہ انقلابِ اسلامی سے پہلے وجود میں آئی تھیں لہٰذا جب ایران میں انقلابِ اسلامی برپا ہواتو اُس وقت شہیدؒ نے کہا کہ اب سب کچھ چھوڑ کر امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی پیروی کی جائے لیکن اس میں جو گروہ بنا ہوا تھا اُس نے نہیں چھوڑا اور جاری رہے۔ حالانکہ شہید صدرؒ نے باقاعدہ فتویٰ دیا تھا کہ اس حزب کے ساتھ انتماع شرعا حرام ہے ۔
Unknown  /  at  04:00:00  /  No comments

مورخہ 10اپریل 2014کو حوزۂ علمیہ جامعۃ العروۃ الوثقیٰ میں شہیدِ مظلوم، شہیدِ راہِ حق حضرت آیت اللہ العظمیٰ شہید سید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ کی برسی کے حوالے سے مجلسِ عزاء منعقد کی گئی جس سے خطاب کرتے ہوئے سفیرِ انقلاب سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے فرمایا کہ شہید صدرؒ امتِ مسلمہ کا وہ نا شناختہ شدہ سرمایہ ہیں جنھوں نے مظلومیت کے ساتھ زندگی بسر کی اور انتہائی مظلومیت کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے ۔ استادِ محترم نے فرمایا کہ خدا وند تعالیٰ نے اس صدی کے اہلِ ایمان و اہلِ اسلام پر یہ خاص عنایت فرمائی ہے کہ اس عصر میں امام خمینی رضون اللہ علیہ اور شہید صدرؒ جیسی ہستیاں پیدا ہوئی ہیں ۔مومنین و مسلمین کو چاہئے کہ ان ہستیوں کی شناخت کروائیں اور رول ماڈل کے طور پر اپنائیں جنھوں نے پاکستان کے موجودہ حالات جیسے زمانوں کیلئے دین و قرآن مجید سے راہِ حل بناکر پیش کیا ہے ۔ بلا مبالغہ افکارِ شہید صدرؒ آج کے پاکستانی حالات کے تناظر میں اس ملت کو(چاہے سنی ہو یا شیعہ) اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ 
استادِ محترم نے فرمایا کہ نظامِ خلقت کے تحت بہت سارے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں جن کی نہ اہلِ زمین کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی زمین کو ضرورت ہوتی ہے لیکن شہید صدرؒ وہ ہستی ہیں جن کی زمین اور اہلِ زمین کو اشد ضرورت تھی ۔اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ زمین میں بہت سارے پودے روز پیدا ہوتے ہیں لیکن انسان کو ہر پودے کی ضرورت نہیں ہوتی بعض ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں جو انسان کیلئے نقصان دہ ہیں ، اسی طرح انسانوں میں بھی بعض انسان اُن ذہریلی جڑی بوٹیوں کی طرح ہوتی ہیں جن کو تلف کرنا ضروری ہوتا ہے اور پھر ان زہریلی جڑی بوٹیوں کے نقصان سے بچنے کیلئے کچھ ضروری مفید جڑی بوٹیوں کی ضرورت ہوتی ہیں۔پس زمین اور اہلِ زمین کو ایسے صالح انسانوں کی ضرورت ہے جن کا کام انسان کی ہدایت کرنا اور انسان کو ہر طرح کی گمراہیوں سے نکالنا ہے ۔ 
استادِ بزرگوار نے فرمایا کہ زمین و اہلِ زمین اور زمانے کیلئے نمرود، فرعون ، شداد اور یزید جیسے لوگ ہر جگہ ملتے ہیں لیکن ابراہیمؑ ، موسیٰ ؑ ا ور امام حسینؑ جیسی ہستیاں بہت کم ملتی ہیں لہٰذا زمانہ ایسی شخصیتوں کی تلاش میں رہتا ہے اور بعض کا منتظر ہوتا ہے کہ وہ آکر اپنی رسالت و فریضہ انجام دیں۔ جیسے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
قافلہ حجا ز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہیں تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات 
فرزندِ انقلاب نے فرمایا کہ امیرالمومنینؑ وہ ہستی تھے جنھیں رسول اللہ ﷺ کے بعد والے زمانے اورقیامت تک آنے والی نسلوں کو بہت ضرورت تھی لیکن اُس وقت کے لوگوں نے آپؑ کو نہیں پہچانا اور اُس نہ پہچاننے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ آغا نے مزید فرمایا کہ بعض شخصیات کی قدر نہ جاننے پر چند نسلوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن امیرالمومنینؑ جیسی شخصیت کو نہ پہچاننے کی قیمت صدیوں سے مسلمان نسلیں ادا کر رہی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں جو قیمت ادا ہو رہی ہے یہامیرالمومنینؑ جیسی ہستیوں کونہ پہچاننے کا نتیجہ ہے ۔ 
استادِ محترم نے مزید فرمایا کہ شہید صدرؒ مجازی علماء میں سے نہیں تھے کہ اعزازی طور پر عالِم کہا گیا ہو بلکہ حقیقتاً لفظِ عالم کے مستحق تھے جسے قرآن مجید نے عالم کہا ہے۔ چونکہ آپؒ کے اندر وہ ساری صفات تھیں یعنی علم بھی تھا، تقویٰ بھی تھا، فکر بھی تھی، فہم بھی تھی ، تدبر بھی تھا، عقل بھی تھی اور خوفِ خدا بھی تھا۔ قرآن مجید نے عالم کیلئے یہ چیزیں شرائط کے طور پر ذکر فرمائی ہیں ۔ استادِ بزرگوار نے مزید فرمایا کہ شہید صدرؒ انسان شناس بھی تھے اور جہان بین بھی تھے، لہٰذا شہیدؒ نے اپنی بصیرت اور الٰہی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت جہان بینی بھی پائی ہے۔ جو انسان جہان شناس و انسان شناس نہ ہو اور آکر کرسیِ امامت پر بیٹھ جائے تو وہ انسانیت کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے ۔ 
سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے مزید فرمایا کہ شہید صدرؒ نے عراق کیلئے نظامِ امامت کو نظام کے طور پر تجویز کیا تھا کہ عراق کیلئے فقط نظامِ امامت ہی راہِ حل ہے اور اُس کیلئے عملی کوششیں شروع کی تھیں اور ایک ایسے وقت میں یہ کوشش شروع کی تھیں کہ اُس وقت نجف کے حوزے میں سیاست کو شجرۂ ممنوعہ کہا جاتا تھا اور اُس وقت عراقی قوم بھی مایوس ترین قوم تھی ۔ آغا نے مزید فرمایا کہ شہیدؒ نے ایک نہضتی کام شروع کیا تھا لیکن وہ بعد میں تنظیمی شکل اختیار کر گیااور جوں ہی اُس کی تنظیمی شکل بن گئی شہیدؒ نے اُس سے جدائی اختیار کر لی اور اُس کی فعالیت کو ممنوع قرار دیا ، اس کے باوجود بھی اس کو انھوں نے جاری رکھا ، یہ وہی جماعت ہے جس کا آج اقتدار ہے ۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے بارے میں معروف ہے کہ شہید صدرؒ نے تأسیس کی تھی لیکن ایک حزب کے طور پر نہیں بلکہ ایک نہضت کے طور پر شروع کیا تھا لیکن بعد میں حزبی شکل اختیار کی اور آفات میں مبتلاء ہوئے چونکہ یہ انقلابِ اسلامی سے پہلے وجود میں آئی تھیں لہٰذا جب ایران میں انقلابِ اسلامی برپا ہواتو اُس وقت شہیدؒ نے کہا کہ اب سب کچھ چھوڑ کر امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی پیروی کی جائے لیکن اس میں جو گروہ بنا ہوا تھا اُس نے نہیں چھوڑا اور جاری رہے۔ حالانکہ شہید صدرؒ نے باقاعدہ فتویٰ دیا تھا کہ اس حزب کے ساتھ انتماع شرعا حرام ہے ۔

0 comments:

Do Not Post Bad Comment

Thursday, 3 April 2014

کیا عورتیں کلرڈ اسکارف پہن سکتی ھیں ؟

Unknown  /  at  04:33:00  /  No comments

0 comments:

Do Not Post Bad Comment

Recent Comments

Copyright © 2013 Bedaari E Ummat Service . WP Theme-junkie converted by Bloggertheme9
Blogger templates. Proudly Powered by Blogger.