Monday, 12 January 2015

نئ نسل ضرور دیکھیں


Unknown  /  at  03:30:00  /  No comments


Posted in: Read Complete Article»

0 comments:

Do Not Post Bad Comment

حضرت علی نے نبی پاک کی حفاظت کیسے کی۔؟- - -بہت ہی پیارا واقع


Unknown  /  at  03:21:00  /  No comments


0 comments:

Do Not Post Bad Comment

موضوع ماہ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ ق

Unknown  /  at  03:18:00  /  No comments

Posted in: Read Complete Article»

0 comments:

Do Not Post Bad Comment

پیغمبر اسلام ص کے مختصر حالات زندگی

ہم خدا کے رسول حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو ہیں، ہم اپنے تمام برادران اسلام بلکہ پوری دنیائے بشریت کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میلاد پر مبارک باد پیش کرتے ہیں کیونکہ تمام مذاہب میں ان کے آنے کی بشارت دی گئی ہے اور ان پر ہی خدا کی نبوت الہی اور پیغام رسانی کا اختتام ہواہے۔ سبھی کو دور جہالت سے رہائی اور بشریت کی فلاح و نجابت کی فکر اور آرزو تھی اور ہر ایک ظلم و ستم کی برائیوں سے آزادی اور آدمیت کے کمال و ارتقاء کم متمنی اور خواہشمند تھا ۔ امن و سلامتی سے معمور دنیا کی تعمیر کے لئے خدا کے آخری مبشر و نذیرکی دنیا راہ تک رہی تھی
ہزاروں  سال  نرگس  اپنی  بے نوری  پہ  روتی ہے
بڑی   مشکل  سے  ہوتا  ہے چمن  میں دیدہ ور پیدا
مسجد نبوی
ولادت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن ایک عام الفیل (۵۷۰ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔اہلِ تشیع ۱۷ ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
آنحضرت کی ولادت کے وقت حیرت انگیز واقعات کاظہور
ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ نبی اکرم کی مادر گرامی جناب آمنہ کی زبانی روایت ہے کہ ” جب میرا بیٹا دنیا میں آیا میں نے ایک غیبی آواز سنی، منادی کہہ رہا تھا : مشرق سے مغرب تک گھوم کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مثل تلاش کرو، ان کے جیسا کون ہوسکتا ہے، تمام انبیاء کے صفات ہم نے ان کو عطا کردیئے ہیں، آدم(ع) کی طرح صفا و پاکیزگی، نوح(ع) کی طرح نرمی و سادگی، ابراہیم علیہ السلام کی طرح حلت و محبت، اسمعیل (‏ع) کی طرح رضا و خوشنودی،  یوسف (ع) کی طرح حسن و زیبائی اور عیسی علیہ السلام کی طرح کرامت و بزرگواری، سب کچھ ان میں موجود ہے ۔ “
حسن یوسف، دم عیسی، ید بیضا داری
آنچہ  خوباں ھمه  دارند،  تو تنہا داری
مسجد نبوی
خاندانِ مبارک
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔
بچپن
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتابوں میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔
شام کا دوسرا سفر اور شادی
تقریباً ۲۵ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر ۲۵ سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔
مسجد نبوی
بعثت (پہلی وحی)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ ۶۱۰ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لاۓ۔ اس وقت سورہ العلق کی آیات نازل ہوئیں ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے هوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا : اے محمد پڑھ : پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا میں پڑھا هوا نھیں هوں ۔ جبرئیل نے انھیں آغوش میں لے کردبایا اور پھر دوبارہ کہا : پڑھ، پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھر اسی جواب کو دھرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا، اور تیسری بار کہا:
 « اقراء باسم ربک الذی خلق۔۔۔»    جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے۔
”علامہ طبرسی“   بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ھیں کہ رسو ل خدا   صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے خدیجہ سے فرمایا :«جب میں تنھا هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هو جاتا هوں» ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خدا آپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نھیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ھیں اور صلہٴ رحم بجا لاتے ھیں  اور جو بات کرتے ھیں اس میں سچ بولتے ھیں۔
”خدیجہ“(ع) کہتی ھیں  : اس واقعہ کے بعد ھم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کاچچا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا ) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کہا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ھے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاھے :
اے محمد !  کہو :
“”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین“۔
اور کہو ” لاالہ الاالله“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
ورقہ “ نے کہا : آپ کو بشارت هو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت هو ۔ میں گواھی دیتا هوں کہ آپ وھی ھیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ھے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ھیں اور پیغمبر مرسل ھیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا  جب ور قہ دنیا سے رخصت هو گیا تو رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:
”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ھے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے هوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “ شروع ہی میں حضرت خدیجہ ۔ع۔ آپ کے چچا زاد حضرت علی علیہ السلام، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق، اور آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن ثابت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریبا پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گۓ۔
دعوت ذوالعشیرة
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طورپرجاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیت نازل هوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔
اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ھے : آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں دعوت دی اس میں تقریباً چالیس افراد شریک هوئے آپ کے چچاؤں میں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولھب نے بھی شرکت کی ۔
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر  چیز لایا هو، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، ابوطالب (ع) سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔
اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔
ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے :  ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے :  ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا ۔
مسجد نبوی
مشرکین مکہ کی مخالفت
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ “اللہ” کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ ۶۱۹ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گۓ۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو “”عام الحزن”” یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
واقعہ معراج
۶۲۰ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
ہجرت مدینہ
۶۲۲ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر ۶۲۲ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ “میثاق مدینہ” نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
جنگیں
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک تھے انہیں “”غزوہ””کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں”” سریہ “” کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ بنی قریظہ، غزوہ بنی مصطلق، غزوہ خیبر، جنگِ موتہ، غزوہ فتح (فتحِ مکہ)، غزوہ حنین، غزوہ تبوک ۔
مسجد نبوی
خطبہ غدیر
مسلمان ارادہ کررھے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھا رکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار هوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نھیں پا رھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے هوئے یوں خطاب فرمایا: میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے هوئے تمھارے درمیان سے جارھا هوں،میں بھی جوابدہ هوںاورتم بھی جوابدہ هو،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :
“”ھم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث هونے کی گواھی نھیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خداوند گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا: اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے هو؟
انهوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری هوگیا۔ سوائے هوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا هوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ھیں؟
 تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ هو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت  (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آ ملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک هو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑا رھے ھیں گویا کسی کو تلاش کر رھے ھیں جونھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند هوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایھا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسھم۔“
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر هوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا هوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ھے)۔
اس کے بعد فرمایا:
«فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ»
”یعنی جس جس کا میں مولاہ هوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اور رھبر ھے“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصر من نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ  اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھرپھیردے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
 ” تمام حاضرین آگاہ هوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یھاں پر اور اس وقت موجود نھیں ھیں “۔
مسجد نبوی
روز اکمال دین
پیغمبر۔ص۔ کا خطبہ ختم هوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے هوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
 ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوئی تھیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل هوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو ان  الفاظ میں بشارت دی:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “
”آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی“۔
”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش هوا۔“
امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا هوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررھے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انهوں نے کہا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل موٴمن و موٴمنةٍ۔“
”مبارک هو ! مبارک هو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر هوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد و پیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا“
وفات
حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون ۶۳۲ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر ۶۳ برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
مسجد نبوی
 رھبر کائنات
                                                ” ہم نے آپ کو خلق عظیم پر فائز کیاہے “
آج پھر دنیا ئے بشریت ظلم و نا انصافی کے گہرے زخموں سے چور کراہ رہی ہے، اگرچہ اس نے بڑی تیزی سے علم و دانش کی عظیم راہیں عبور کرلی ہیں لیکن اب بھی آدمیت اخلاق اور انسانی وجدان کے بیچ راہ میں حیران و سرگردان کھڑی ہے ۔ اسے ایک   ایسے” درخشاں نور ” کی ضرورت ہے جو اس کی حیات کو گرمی اور تازگی عطا کردے نور محمدی کا آخری جلوہ کو ایک دنیا سراپا انتظار ہے ۔ خاص طور پر ان دنوں ہر طرف  ” محمّد(ص) کی آمد ” کا نور پھیلا ہوا ہے ۔ یقینا” ان کی معرفت اور عشق و اطاعت دلوں سے دنیوی آلودگیوں کی سیاہی دور کردے گی اور محبت و سچائی کے تحفے نچھاور کرے گی ۔ اگر تمام انسان ان کی رہنمائیوں کے پرتو میں زندگی گزارنے کا عہد کریں تو نجات و رستگاری قدم چومے گی ۔ خداوند عالم نے بھی اس طرح کے انسانوں پر درود بھیجا ہے اپنے پیغمبر (ص) کو خطاب کرکے وہ فرما چکا ہے :
” جب آپ کے پاس صاحبان ایمان آئیں تو ان سے کہئے : تم پر سلام ہو، تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر تمہارے حق میں رحمت لازم کرلی ہے  “
اس لئے آج پوری کائنات خدا کے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کا جشن ولادت پورے جوش و خروش کے ساتھ منارہی ہے گویا زمین و آسمان، انسان اور فرشتے سب کے سب اپنی اپنی زبان میں آپ کی مدح سرائی میں مشغول ہیں جیسا کہ خود رسول اسلام (ص) نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں کہا تھا :
مجھ کو محمد کہتے ہیں کیونکہ اہل زمین میری نعت خوانی میں مشغول رہتے ہیں ۔مجھے احمد کہتے ہیں کیونکہ آسمان والے میرا قصیدہ پڑھتے ہیں ۔ میری کنیت ابوالقاسم ہے کیونکہ خداوند عالم نے قیامت میں جنت اور جہنم کی تقسیم کے لئے میری محبت کو معیار قراردیا ہے ۔ پس جو مجھ پر ایمان لائے گا خدا اس کو بہشت میں جگہ عطا کرے گا ۔
محمّد   کی  محبّت دین حق کی   شرط  اوّل  ہے
اسی  میں  ہو  اگر خامی  تو ا یمان  نامکمل  ہے
Unknown  /  at  02:50:00  /  No comments

ہم خدا کے رسول حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو ہیں، ہم اپنے تمام برادران اسلام بلکہ پوری دنیائے بشریت کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میلاد پر مبارک باد پیش کرتے ہیں کیونکہ تمام مذاہب میں ان کے آنے کی بشارت دی گئی ہے اور ان پر ہی خدا کی نبوت الہی اور پیغام رسانی کا اختتام ہواہے۔ سبھی کو دور جہالت سے رہائی اور بشریت کی فلاح و نجابت کی فکر اور آرزو تھی اور ہر ایک ظلم و ستم کی برائیوں سے آزادی اور آدمیت کے کمال و ارتقاء کم متمنی اور خواہشمند تھا ۔ امن و سلامتی سے معمور دنیا کی تعمیر کے لئے خدا کے آخری مبشر و نذیرکی دنیا راہ تک رہی تھی
ہزاروں  سال  نرگس  اپنی  بے نوری  پہ  روتی ہے
بڑی   مشکل  سے  ہوتا  ہے چمن  میں دیدہ ور پیدا
مسجد نبوی
ولادت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن ایک عام الفیل (۵۷۰ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔اہلِ تشیع ۱۷ ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
آنحضرت کی ولادت کے وقت حیرت انگیز واقعات کاظہور
ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ نبی اکرم کی مادر گرامی جناب آمنہ کی زبانی روایت ہے کہ ” جب میرا بیٹا دنیا میں آیا میں نے ایک غیبی آواز سنی، منادی کہہ رہا تھا : مشرق سے مغرب تک گھوم کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مثل تلاش کرو، ان کے جیسا کون ہوسکتا ہے، تمام انبیاء کے صفات ہم نے ان کو عطا کردیئے ہیں، آدم(ع) کی طرح صفا و پاکیزگی، نوح(ع) کی طرح نرمی و سادگی، ابراہیم علیہ السلام کی طرح حلت و محبت، اسمعیل (‏ع) کی طرح رضا و خوشنودی،  یوسف (ع) کی طرح حسن و زیبائی اور عیسی علیہ السلام کی طرح کرامت و بزرگواری، سب کچھ ان میں موجود ہے ۔ “
حسن یوسف، دم عیسی، ید بیضا داری
آنچہ  خوباں ھمه  دارند،  تو تنہا داری
مسجد نبوی
خاندانِ مبارک
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔
بچپن
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتابوں میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔
شام کا دوسرا سفر اور شادی
تقریباً ۲۵ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر ۲۵ سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔
مسجد نبوی
بعثت (پہلی وحی)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ ۶۱۰ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لاۓ۔ اس وقت سورہ العلق کی آیات نازل ہوئیں ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے هوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا : اے محمد پڑھ : پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا میں پڑھا هوا نھیں هوں ۔ جبرئیل نے انھیں آغوش میں لے کردبایا اور پھر دوبارہ کہا : پڑھ، پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھر اسی جواب کو دھرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا، اور تیسری بار کہا:
 « اقراء باسم ربک الذی خلق۔۔۔»    جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے۔
”علامہ طبرسی“   بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ھیں کہ رسو ل خدا   صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے خدیجہ سے فرمایا :«جب میں تنھا هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هو جاتا هوں» ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خدا آپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نھیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ھیں اور صلہٴ رحم بجا لاتے ھیں  اور جو بات کرتے ھیں اس میں سچ بولتے ھیں۔
”خدیجہ“(ع) کہتی ھیں  : اس واقعہ کے بعد ھم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کاچچا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا ) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کہا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ھے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاھے :
اے محمد !  کہو :
“”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین“۔
اور کہو ” لاالہ الاالله“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
ورقہ “ نے کہا : آپ کو بشارت هو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت هو ۔ میں گواھی دیتا هوں کہ آپ وھی ھیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ھے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ھیں اور پیغمبر مرسل ھیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا  جب ور قہ دنیا سے رخصت هو گیا تو رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:
”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ھے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے هوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “ شروع ہی میں حضرت خدیجہ ۔ع۔ آپ کے چچا زاد حضرت علی علیہ السلام، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق، اور آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن ثابت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریبا پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گۓ۔
دعوت ذوالعشیرة
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طورپرجاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیت نازل هوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔
اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ھے : آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں دعوت دی اس میں تقریباً چالیس افراد شریک هوئے آپ کے چچاؤں میں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولھب نے بھی شرکت کی ۔
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر  چیز لایا هو، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، ابوطالب (ع) سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔
اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔
ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے :  ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے :  ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا ۔
مسجد نبوی
مشرکین مکہ کی مخالفت
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ “اللہ” کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ ۶۱۹ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گۓ۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو “”عام الحزن”” یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
واقعہ معراج
۶۲۰ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
ہجرت مدینہ
۶۲۲ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر ۶۲۲ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ “میثاق مدینہ” نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
جنگیں
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک تھے انہیں “”غزوہ””کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں”” سریہ “” کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ بنی قریظہ، غزوہ بنی مصطلق، غزوہ خیبر، جنگِ موتہ، غزوہ فتح (فتحِ مکہ)، غزوہ حنین، غزوہ تبوک ۔
مسجد نبوی
خطبہ غدیر
مسلمان ارادہ کررھے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھا رکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار هوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نھیں پا رھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے هوئے یوں خطاب فرمایا: میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے هوئے تمھارے درمیان سے جارھا هوں،میں بھی جوابدہ هوںاورتم بھی جوابدہ هو،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :
“”ھم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث هونے کی گواھی نھیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خداوند گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا: اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے هو؟
انهوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری هوگیا۔ سوائے هوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا هوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ھیں؟
 تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ هو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت  (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آ ملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک هو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑا رھے ھیں گویا کسی کو تلاش کر رھے ھیں جونھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند هوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایھا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسھم۔“
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر هوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا هوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ھے)۔
اس کے بعد فرمایا:
«فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ»
”یعنی جس جس کا میں مولاہ هوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اور رھبر ھے“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصر من نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ  اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھرپھیردے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
 ” تمام حاضرین آگاہ هوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یھاں پر اور اس وقت موجود نھیں ھیں “۔
مسجد نبوی
روز اکمال دین
پیغمبر۔ص۔ کا خطبہ ختم هوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے هوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
 ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوئی تھیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل هوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو ان  الفاظ میں بشارت دی:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “
”آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی“۔
”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش هوا۔“
امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا هوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررھے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انهوں نے کہا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل موٴمن و موٴمنةٍ۔“
”مبارک هو ! مبارک هو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر هوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد و پیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا“
وفات
حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون ۶۳۲ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر ۶۳ برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
مسجد نبوی
 رھبر کائنات
                                                ” ہم نے آپ کو خلق عظیم پر فائز کیاہے “
آج پھر دنیا ئے بشریت ظلم و نا انصافی کے گہرے زخموں سے چور کراہ رہی ہے، اگرچہ اس نے بڑی تیزی سے علم و دانش کی عظیم راہیں عبور کرلی ہیں لیکن اب بھی آدمیت اخلاق اور انسانی وجدان کے بیچ راہ میں حیران و سرگردان کھڑی ہے ۔ اسے ایک   ایسے” درخشاں نور ” کی ضرورت ہے جو اس کی حیات کو گرمی اور تازگی عطا کردے نور محمدی کا آخری جلوہ کو ایک دنیا سراپا انتظار ہے ۔ خاص طور پر ان دنوں ہر طرف  ” محمّد(ص) کی آمد ” کا نور پھیلا ہوا ہے ۔ یقینا” ان کی معرفت اور عشق و اطاعت دلوں سے دنیوی آلودگیوں کی سیاہی دور کردے گی اور محبت و سچائی کے تحفے نچھاور کرے گی ۔ اگر تمام انسان ان کی رہنمائیوں کے پرتو میں زندگی گزارنے کا عہد کریں تو نجات و رستگاری قدم چومے گی ۔ خداوند عالم نے بھی اس طرح کے انسانوں پر درود بھیجا ہے اپنے پیغمبر (ص) کو خطاب کرکے وہ فرما چکا ہے :
” جب آپ کے پاس صاحبان ایمان آئیں تو ان سے کہئے : تم پر سلام ہو، تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر تمہارے حق میں رحمت لازم کرلی ہے  “
اس لئے آج پوری کائنات خدا کے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کا جشن ولادت پورے جوش و خروش کے ساتھ منارہی ہے گویا زمین و آسمان، انسان اور فرشتے سب کے سب اپنی اپنی زبان میں آپ کی مدح سرائی میں مشغول ہیں جیسا کہ خود رسول اسلام (ص) نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں کہا تھا :
مجھ کو محمد کہتے ہیں کیونکہ اہل زمین میری نعت خوانی میں مشغول رہتے ہیں ۔مجھے احمد کہتے ہیں کیونکہ آسمان والے میرا قصیدہ پڑھتے ہیں ۔ میری کنیت ابوالقاسم ہے کیونکہ خداوند عالم نے قیامت میں جنت اور جہنم کی تقسیم کے لئے میری محبت کو معیار قراردیا ہے ۔ پس جو مجھ پر ایمان لائے گا خدا اس کو بہشت میں جگہ عطا کرے گا ۔
محمّد   کی  محبّت دین حق کی   شرط  اوّل  ہے
اسی  میں  ہو  اگر خامی  تو ا یمان  نامکمل  ہے

0 comments:

Do Not Post Bad Comment

رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا زندگی نامہ

رسول اللہ کی ولادت باسعادت1________________________
اکثر محدثین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں یعنی نزول وحی سے چالیس سال قبل ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ لیکن یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ شیعہ محدثین و دانشوروں کی رائے میں آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول کو ہوئی اور اہلسنّت کے مورخین نے آپ کا روز ولادت ۱۲ ربیع الاول تسلیم کیا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت چند حوادث اور غیر معمولی واقعات بھی رونما ہوئے جن میں سے
بعض یہ ہیں:ایوانِ کسریٰ میں شگاف پڑ گیا اور اس کے چودہ کنگورے زمین پر گر گئے، فارس کا وہ آتشکدہ جو گزشتہ ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا یکایک خاموش ہو گیا۔ ساوہ کی جھیل بیٹھ گئی، تمام بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ زرتشتی عالموں اور کسریٰ خاندان کے بادشاہ نے پریشان کن خواب دیکھے، شاہانِ دنیا کے تخت سلطنت سرنگوں ہو گئے، پیغمبر اکرم کے باعث نور آسمان کی طرف بلند ہوا اور بہت وسیع حصے میں پھیل گیا۔
ایوانِ کسریٰ
پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت کے وقت ایسے حیرتناک واقعات کا رونما ہونا درحقیقت لوگوں کو خطرے سے آگاہ اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنا تھا بالخصوص ان حکمرانوں کی تنبیہ کرنا مقصود تھی جو اس وقت دنیا میں فرمانِ روائی کر رہے تھے تاکہ وہ ان واقعات کے بارے میں غور کریں اور یہ جانیں کہ ان حادثات کا رونما ہونے کا کیا سبب ہے، نیز خود سے سوال کریں کہ کیونکر بتوں کے ڈھانچے اور بت پرستی کے نشانات منہ کے بل زمین پر آ گرے ہیں، اور وہ لوگ جو خود کو زمین کا آقا و مالک سمجھتے تھے کیوں مضطرب و پریشان ہو گئے، کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے بھی برتر بہتر طاقت کا ظہور ہوچکا ہے؟ اس کے ساتھ ہی بت پرستی اور شیطانی طاقتوں کا زمانی عروج ختم ہوچکا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
رسولِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، اسی لیے ایک قول کے مطابق رسولِ خدا کی تربیت بچپن سے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب  کی زیر سرپرستی ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب نے پیدائش کے ساتویں دن بھیڑ ذبح کرکے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا اور نام محمد رکھا، اس نومولود بچے کے لیے دایہ کی تلاش ہوئی اور چند روز کے لیے انہوں نے بچے کو ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد طائفہ بنی سعد کے معزز فرد ابوذویب کی مہربان و پاکدامن دختر حضرت حلیمہ نے آنحضرت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور صحرا کی جانب لے گئیں تاکہ فطرت کی آغوش اور صحتمندانہ آزاد فضا میں ان بیماروں سے دور جو کبھی شہر مکہ کے لیے خطرہ پیدا کر دیتی تھیں۔ ان کی پرورش کرسکیں۔ قبیلہ بن سعد کے درمیان رسولِ خدا کی موجودگی حضرت حلیمہ اس نونہال کو ان کی والدہ کی خدمت میں لے گئیں تو انہوں نے آنحضرت کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی چنانچہ حضرت آمنہ نے بھی ان سے اتفاق کیا۔504c_mouhamed_02
پیغمبر اکرم پانچ سال تک صحراء کے دامن میں طائفہ بنی سعد کے درمیان زندگی بسر کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ کو واپس والدہ اور دادا کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ کے مزار کی زیارت سے مشرف ہونے اور دونوں اناؤں سے ملاقات کرنے کی غرض سے یثرب گئیں۔ جہاں کا ایک ماہ تک قیام رہا وہ جب واپس مکہ تشریف لا رہی تھیں تو راستہ میں (ابواء ۳۷) نامی مقام پر شدید بیمار ہو گئیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حادثے سے آنحضرت بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کے مصائب میں دو گنا اضافہ ہو گیا، لیکن اس واقعے نے ہی آپ کو دادا سے بہت نزدیک کر دیا۔
قرآن مجید نے ان مصائب و رنج و تکالیف کے زمانے کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
الم یجدک یتیما فاوی
”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا۔“
ابھی آپ نے زندگی کی آٹھ بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں دادا کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق اپنے چچا ابوطالب کے زیر سرپرستی آ گئے۔
حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو پیغمبر اکرم بہت زیادہ عزیز تھے، وہ لوگ آپ کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، چنانچہ جس وقت کھانے کا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ پیارے بیٹے (حضرت محمد) کے آنے کا انتظار کرو۔
رسول خدا حضرت فامہ بنت اسد کے بارے میں فرماتے ہیں:
حقیقی معنوں میں وہی میری ماں تھیں، کیونکہ وہ اکثر اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا دیتیں کہ شکم سیر ہو کر کھاتا ان کے بچے میلے ہی رہتے مگر مجھے نہلا دھلا کر ہمیشہ صاف ستھرا رکھتیں۔
خدائی تربیت
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ہیں:
لقد قرن اللہ بہ من لدن ان کان فطمنما اعظم ملک من الملئکة یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلا ونھار
”جس دن رسول خدا کا دودھ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ہمراہ کر دیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راہوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راہنمائی کرتا رہے۔“
رسالت کی جانب ایک قدم شام کی طرف پہلا سفر
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت ابوطالب کے گھر میں رہنا شروع کیا تو آپ کی زندگی کی نئی فصل کا آغاز ہوا۔ یہ فصل لوگوں سے ملاقات اور مختلف نوع کے سفر اختیار کرنے سے شروع ہوئی، چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں کے ذریعے ہی حضرت محمد کا گوہر وجود اس تاریک و سیاہ ماحول میں درخشاں ہوا، اور یہیں سے آپ کو معاشرے نے امین قریش کہنا شروع کیا۔
بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ اس کارواں قریش کے ساتھ، جو تجارت کے لیے ملک شام کی جانب جا رہا تھا سفر پر روانہ ہوئے۔ جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پہنچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لیے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا پر پڑی۔ اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخرالزمان سے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیان اسے نبی اکرم میں نظر آئیں تو اس نے آپ کو فوراً پہچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ کے نبی ہونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں اور مزید کہا:
ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ انہیں گزند پہنچائے بغیر نہ رہیں گے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہو سکے واپس مکہ لے جایئے۔
حضرت ابوطالب نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آ گئے اور پوری ط_____52رح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔
مستشرقین کی افتراء پردازی
راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بدنیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بہت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انہی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعے آپ پر نازل ہوئیں ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الہامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و براہین سے اس گمان کی نفی ہوتی ہے، ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ہیں:
عقل کی رو سے یہ بات بعید ہے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ہو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکھ لے اور اٹھائیس سال بعد انہیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔
          اگر پیغمبر نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکھ لی ہوتیں تو وہ یقینا قریش کے درمیان پھیل گئی ہوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آ کر انہیں بیان کرتے۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے بعد رسول اکرم اپنی قوم کے افراد سے یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ میں امی ہوں۔
          اگر تورات اور انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نہیں جو ان کتابوں کے ہیں۔
          اگر عیسائی راہب کو اتنی زیادہ مذہبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشہور ہوا اور پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟
ملک شام کا دوسرا سفر
رسول اکرم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا  کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ“ نامی غلام کے ہمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت خویلد کی دخترحضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں۔ انہیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں۔ جس وقت انہوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا کے سامنے یہ تجویز رکھی، اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دوں گی۔
کاروانِ تجارت میں رسولِ اکرم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لیے نہایت ہی سود مند و منفعت بخش ثابت ہوا، اور انہیں توقع سے زیادہ منافع ملا۔ نیز رسول خدا کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا۔ سفر کے خاتمے پر ”میسرہ“ نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔
حضرت خدیجہ کے ساتھ شادی
حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا رشتے میں پیغمبر اکرم کی چچا زاد بہن تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصیٰ بن کلاب سے جاملتا تھا۔ حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانہٴ کعبہ کا حامی (۸) و پاسدار تھا اور خود حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا اپنی عفت و پاکدامنی میں ایسی مشہور تھیں کہ دورِ جاہلیت میں انہیں ”طاہرہ“ اور ”سیدہ قریش“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کے لیے بہت سے رشتے آئے اگرچہ شادی کے خواہشمند مہر ادا کرنے کے لیے کثیر رقم دینے کے لیے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئیں۔images
جب رسول خدا ملک شام سے سفر تجارت کے بعد واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ سے شادی کرنے کا اظہار کیا۔
رسولِ خدا نے اس مسئلے کو حضرت ابوطالب اور دیگر چچاؤں کے درمیان رکھا۔ سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آپ نے قاصد کے ذریعے حضرت خدیجہ کو اس رشتے کی منظوری کا مثبت جواب دیا۔ رشتے کے منظور کئے جانے کے بعد حضرت ابوطالب اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے گھر پر محفل تقریب نکاح منعقد ہوئی اور نکاح کا خطبہ دولہا اور دلہن کے چچاؤں ”حضرت ابوطالب“ اور ”عمر بن اسد“ نے پڑھا۔
شادی کے وقت رسول خدا کا سن مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کی عمر چالیس سال تھی۔
حضرت خدیجہ سے شادی کے محرکات
بعض وہ لوگ جو ہر چیز کو مادی مفاد کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں انہوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے:
چونکہ حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کو تجارتی امور کے لیے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے پیغمبر اکرم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم یتیم و نادار تھے اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی شرافتمندانہ زندگی سے موافق تھے اسی لیے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا، اگرچہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔
اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو شامل تھے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا کی اور بعد میں حضرت خدیجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ذیل میں چند نکات بیان کرتے ہیں:
اول تو پیغمبر کی پوری زندگی ہمیں زہد و تقویٰ و معنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کی نظر میں دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اور آپ نے حضرت خدیجہ کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نہیں کیا۔
دوسرے اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  نے کی تھی نہ کہ رسول اکرم نے۔
اب ہم یہاں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
حضرت خدیجہ عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اور انہیں متقی و پرہیزگار شوہر کی تلاش تھی۔
دوسرے یہ کہ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ“ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش“ کے لیے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا چنانچہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا۔
تیسرے یہ کہ پیغمبر اکرم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے آپ کو سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی۔ اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول اکرم کو ضرور سفر پر روانہ کرتیں تاکہ مال و دولت میں اضافہ ہو سکے۔ اس کے برعکس حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا  نے اپنی دولت آنحضرت کے حوالے کر دی تھی تاکہ اسے آپ ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے رسولِ خدا سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے۔
اے میرے چچا کے بیٹے!
چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا تو میں تمہاری جانب مائل ہوئی اور شادی کے لیے پیغام بھیجا۔
پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے
حضر خدیجہ سلام اللہ علیھا سے رسول خدا کی شادی کے بعد حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام ملک شام سے اپنے ساتھ کچھ غلام لے کر آئے جن میں ایک آٹھ سالہ لڑکا زید ابن حارثہ بھی تھا، جس وقت حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  ان غلاموں کو دیکھنے کے لیے آئیں تو حکیم نے ان سے کہا کہ پھوپھی جان آپ ان غلاموں میں سے جسے بھی چن لیں گی وہ آپ ہی کو مل جائے گا(۲) حضرت خدیجہ نے زید کو چن لیا۔
جب رسول خدا نے زید کو حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کے پاس دیکھا تو آپ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ غلام مجھے دے دیا جائے۔ حضرت خدیجہ نے اس غلام کو پیغمبر اکرم کے حوالے کر دیا۔ پیغمبر خدا نے اسے آزاد کرکے اپنا فرزند (متبنی) بنا لیا لیکن جب پیغمبر خدا پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو قرآن نے حکم دیا کہ انہیں متبنی نہیں صرف فرزند کہا جائے۔
جب زید کے والد ”حارث“ کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا یبٹا شہر مکہ میں رسول خدا کے گھر میں ہے تو وہ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا کہ ان کا بیٹا ان کو واپس دے دیا جائے۔ آنحضرت نے زید سے فرمایا:
ہمارے ساتھ رہو گے یا اپنے والد کے ساتھ جاؤ گے؟
اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد کے ساتھ واپس چلے جاؤ، حضرت زید نے پیغمبر اکرم کے پاس ہی رہنا پسند کیا۔ جب رسول اللہ پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو حضرت علی علیہ السلام کے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت پر ایمان لائے۔
رسولِ خدا نے ان کا نکاح پاک دامن اور ایثار پسند خاتون ام ایمن سے کر دیا جن سے ”اسامہ“ پیدا ہوئے اس کے بعد آپ نے اپنے چچا کی لڑکی ”زینب بنت حجش“ سے ان کی شادی کر دی۔
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت
شہر مکہ کے اس تاریخ ساز عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت باسعادت تھی، مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش واقعہٴ عام الفیل کے تیس سال بعد ہوئی، خانہ کعبہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش و تولد آپ کے عظیم و ممتاز فضائل میں سے ایک ہے۔ اس فضیلت کا نہ صرف شیعہ دانشوروں نے ذکر کیا ہے بلکہ اہلسنّت کے محدثین و مورخین بھی اس کے معترف ہیں۔
پیغمبر اکرم کے دامن میں تربیت
حضرت علی علیہ السلام نے بچپن اور شیرخوارگی کا زمانہ اپنے مہربان اور پاکدامن والدین حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد کی آغوش اور اس گھر میں بسر کیا جہاں نورِ رسالت اور آفتابِ نبوت تاباں تھا۔ حضرت ابو طالب کے اس نونہال پر حضرت محمد کی شروع سے ہی خاص توجہ و عنایت تھی، اسی لیے آپ نے حضرت علی علیہ اسلام کے ساتھ محبت و مہربانی کے سلوک اور تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
رسولِ خدا نے اسی پر ہی اکتفا نہ کی، بلکہ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی عمر کی چھ بہاریں دیکھ لیں، تو آپ انہیں اپنے گھر لے آئے اور بذاتِ خود ان کی تربیت فرمانے لگے۔
حضرت علی علیہ السلام سے بے پناہ شغف کی وجہ سے آپ انہیں اپنے سے ہرگز جدا نہیں کرتے تھے چنانچہ جب کھی آپ عبادت کے لیے مکہ سے باہر غارِ حراء میں تشریف لے جاتے تو حضرت علی علیہ السلام آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔
رسولِ اکرم کے زیر سایہ حضرت علی علیہ السلام کی جو تربیت ہوئی اس کی اہمیت و قدر و قیمت کے بارے میں خود حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ولقد علمتم موضعی من رسول اللہ ابالقرابتہ القریبة والمنزلة الخصیصہ وضعنی فی حجرہ وانا ولد یضمنی الی صدرہ و یکنفنی فی راشہ ویمسنی جسدہ و یشمنی عرفہ وکان یمضغ النبی ثم یلقینی… ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر اہ برفع کانی کل یوم اخلاقہ علما و یامرنی بالاقتداء بہ
”یہ تو تم سب ہی جانتے ہو کہ رسول خدا کو مجھ سے کیسی قربت تھی اور آپ کی نظروں میں میری کیا قدر و منزلت تھی، اس وقت جب میں بچہ تھا آپ مجھے اپنی گود میں جگہ دیتے اور سینے سے لگاتے، مجھے اپنے بستر پر اپنی جگہ لٹاتے، میں آپ سے بغل گیر ہوتا اور آپ کے جسم مبارک کی عطر آگیں بو میرے مشام کو معطر کر دیتی۔ آپ نوالے چبا کر میرے منہ میں رکھتے، میں پیغمبر اکرم کے نقش قدم پر اس طرح چلتا جیسے شیرخوار بچہ اپنی ماں کی پیروی کرتا ہے۔ آپ ہر روز اخلاق کا پرچم میرے سانے لراتے اور حکم فرماتے کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں۔“
معبود حقیقی سے انس و محبت
امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال، ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود جو ہمیشہ دامنگیر رہیں، نہایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔ آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش نہیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آپ ہر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غارِ حراء“ میں تنہا رہ کر عبادت خداوند میں گزارتے تھے۔Muhammad
جناب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ولقد کان مجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولایراہ غیر
”رسول خدا ہر سال کچھ عرصے کے لیے غار حراء میں قیام فرماتے، اس وقت میں ہی انہیں دیکھتا میرے علاوہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔“
پیغمبر اکرم کے آباء و اجداد سب ہی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔
اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں:
شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا کے والدین، آباؤ اجداد مسلمان ہی نہیں بلکہ سب ہی صدیقین تھے۔ وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء۔ ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذہبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
رسول اکرم کا ارشاد ہے:
لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الی ارحام التطھیرات
”میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ہوتا رہا۔“
Unknown  /  at  02:48:00  /  No comments

رسول اللہ کی ولادت باسعادت1________________________
اکثر محدثین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں یعنی نزول وحی سے چالیس سال قبل ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ لیکن یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ شیعہ محدثین و دانشوروں کی رائے میں آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول کو ہوئی اور اہلسنّت کے مورخین نے آپ کا روز ولادت ۱۲ ربیع الاول تسلیم کیا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت چند حوادث اور غیر معمولی واقعات بھی رونما ہوئے جن میں سے
بعض یہ ہیں:ایوانِ کسریٰ میں شگاف پڑ گیا اور اس کے چودہ کنگورے زمین پر گر گئے، فارس کا وہ آتشکدہ جو گزشتہ ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا یکایک خاموش ہو گیا۔ ساوہ کی جھیل بیٹھ گئی، تمام بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ زرتشتی عالموں اور کسریٰ خاندان کے بادشاہ نے پریشان کن خواب دیکھے، شاہانِ دنیا کے تخت سلطنت سرنگوں ہو گئے، پیغمبر اکرم کے باعث نور آسمان کی طرف بلند ہوا اور بہت وسیع حصے میں پھیل گیا۔
ایوانِ کسریٰ
پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت کے وقت ایسے حیرتناک واقعات کا رونما ہونا درحقیقت لوگوں کو خطرے سے آگاہ اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنا تھا بالخصوص ان حکمرانوں کی تنبیہ کرنا مقصود تھی جو اس وقت دنیا میں فرمانِ روائی کر رہے تھے تاکہ وہ ان واقعات کے بارے میں غور کریں اور یہ جانیں کہ ان حادثات کا رونما ہونے کا کیا سبب ہے، نیز خود سے سوال کریں کہ کیونکر بتوں کے ڈھانچے اور بت پرستی کے نشانات منہ کے بل زمین پر آ گرے ہیں، اور وہ لوگ جو خود کو زمین کا آقا و مالک سمجھتے تھے کیوں مضطرب و پریشان ہو گئے، کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے بھی برتر بہتر طاقت کا ظہور ہوچکا ہے؟ اس کے ساتھ ہی بت پرستی اور شیطانی طاقتوں کا زمانی عروج ختم ہوچکا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
رسولِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، اسی لیے ایک قول کے مطابق رسولِ خدا کی تربیت بچپن سے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب  کی زیر سرپرستی ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب نے پیدائش کے ساتویں دن بھیڑ ذبح کرکے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا اور نام محمد رکھا، اس نومولود بچے کے لیے دایہ کی تلاش ہوئی اور چند روز کے لیے انہوں نے بچے کو ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد طائفہ بنی سعد کے معزز فرد ابوذویب کی مہربان و پاکدامن دختر حضرت حلیمہ نے آنحضرت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور صحرا کی جانب لے گئیں تاکہ فطرت کی آغوش اور صحتمندانہ آزاد فضا میں ان بیماروں سے دور جو کبھی شہر مکہ کے لیے خطرہ پیدا کر دیتی تھیں۔ ان کی پرورش کرسکیں۔ قبیلہ بن سعد کے درمیان رسولِ خدا کی موجودگی حضرت حلیمہ اس نونہال کو ان کی والدہ کی خدمت میں لے گئیں تو انہوں نے آنحضرت کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی چنانچہ حضرت آمنہ نے بھی ان سے اتفاق کیا۔504c_mouhamed_02
پیغمبر اکرم پانچ سال تک صحراء کے دامن میں طائفہ بنی سعد کے درمیان زندگی بسر کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ کو واپس والدہ اور دادا کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ کے مزار کی زیارت سے مشرف ہونے اور دونوں اناؤں سے ملاقات کرنے کی غرض سے یثرب گئیں۔ جہاں کا ایک ماہ تک قیام رہا وہ جب واپس مکہ تشریف لا رہی تھیں تو راستہ میں (ابواء ۳۷) نامی مقام پر شدید بیمار ہو گئیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حادثے سے آنحضرت بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کے مصائب میں دو گنا اضافہ ہو گیا، لیکن اس واقعے نے ہی آپ کو دادا سے بہت نزدیک کر دیا۔
قرآن مجید نے ان مصائب و رنج و تکالیف کے زمانے کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
الم یجدک یتیما فاوی
”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا۔“
ابھی آپ نے زندگی کی آٹھ بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں دادا کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق اپنے چچا ابوطالب کے زیر سرپرستی آ گئے۔
حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو پیغمبر اکرم بہت زیادہ عزیز تھے، وہ لوگ آپ کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، چنانچہ جس وقت کھانے کا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ پیارے بیٹے (حضرت محمد) کے آنے کا انتظار کرو۔
رسول خدا حضرت فامہ بنت اسد کے بارے میں فرماتے ہیں:
حقیقی معنوں میں وہی میری ماں تھیں، کیونکہ وہ اکثر اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا دیتیں کہ شکم سیر ہو کر کھاتا ان کے بچے میلے ہی رہتے مگر مجھے نہلا دھلا کر ہمیشہ صاف ستھرا رکھتیں۔
خدائی تربیت
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ہیں:
لقد قرن اللہ بہ من لدن ان کان فطمنما اعظم ملک من الملئکة یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلا ونھار
”جس دن رسول خدا کا دودھ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ہمراہ کر دیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راہوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راہنمائی کرتا رہے۔“
رسالت کی جانب ایک قدم شام کی طرف پہلا سفر
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت ابوطالب کے گھر میں رہنا شروع کیا تو آپ کی زندگی کی نئی فصل کا آغاز ہوا۔ یہ فصل لوگوں سے ملاقات اور مختلف نوع کے سفر اختیار کرنے سے شروع ہوئی، چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں کے ذریعے ہی حضرت محمد کا گوہر وجود اس تاریک و سیاہ ماحول میں درخشاں ہوا، اور یہیں سے آپ کو معاشرے نے امین قریش کہنا شروع کیا۔
بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ اس کارواں قریش کے ساتھ، جو تجارت کے لیے ملک شام کی جانب جا رہا تھا سفر پر روانہ ہوئے۔ جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پہنچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لیے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا پر پڑی۔ اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخرالزمان سے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیان اسے نبی اکرم میں نظر آئیں تو اس نے آپ کو فوراً پہچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ کے نبی ہونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں اور مزید کہا:
ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ انہیں گزند پہنچائے بغیر نہ رہیں گے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہو سکے واپس مکہ لے جایئے۔
حضرت ابوطالب نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آ گئے اور پوری ط_____52رح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔
مستشرقین کی افتراء پردازی
راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بدنیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بہت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انہی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعے آپ پر نازل ہوئیں ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الہامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و براہین سے اس گمان کی نفی ہوتی ہے، ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ہیں:
عقل کی رو سے یہ بات بعید ہے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ہو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکھ لے اور اٹھائیس سال بعد انہیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔
          اگر پیغمبر نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکھ لی ہوتیں تو وہ یقینا قریش کے درمیان پھیل گئی ہوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آ کر انہیں بیان کرتے۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے بعد رسول اکرم اپنی قوم کے افراد سے یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ میں امی ہوں۔
          اگر تورات اور انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نہیں جو ان کتابوں کے ہیں۔
          اگر عیسائی راہب کو اتنی زیادہ مذہبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشہور ہوا اور پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟
ملک شام کا دوسرا سفر
رسول اکرم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا  کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ“ نامی غلام کے ہمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت خویلد کی دخترحضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں۔ انہیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں۔ جس وقت انہوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا کے سامنے یہ تجویز رکھی، اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دوں گی۔
کاروانِ تجارت میں رسولِ اکرم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لیے نہایت ہی سود مند و منفعت بخش ثابت ہوا، اور انہیں توقع سے زیادہ منافع ملا۔ نیز رسول خدا کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا۔ سفر کے خاتمے پر ”میسرہ“ نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔
حضرت خدیجہ کے ساتھ شادی
حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا رشتے میں پیغمبر اکرم کی چچا زاد بہن تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصیٰ بن کلاب سے جاملتا تھا۔ حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانہٴ کعبہ کا حامی (۸) و پاسدار تھا اور خود حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا اپنی عفت و پاکدامنی میں ایسی مشہور تھیں کہ دورِ جاہلیت میں انہیں ”طاہرہ“ اور ”سیدہ قریش“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کے لیے بہت سے رشتے آئے اگرچہ شادی کے خواہشمند مہر ادا کرنے کے لیے کثیر رقم دینے کے لیے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئیں۔images
جب رسول خدا ملک شام سے سفر تجارت کے بعد واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ سے شادی کرنے کا اظہار کیا۔
رسولِ خدا نے اس مسئلے کو حضرت ابوطالب اور دیگر چچاؤں کے درمیان رکھا۔ سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آپ نے قاصد کے ذریعے حضرت خدیجہ کو اس رشتے کی منظوری کا مثبت جواب دیا۔ رشتے کے منظور کئے جانے کے بعد حضرت ابوطالب اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے گھر پر محفل تقریب نکاح منعقد ہوئی اور نکاح کا خطبہ دولہا اور دلہن کے چچاؤں ”حضرت ابوطالب“ اور ”عمر بن اسد“ نے پڑھا۔
شادی کے وقت رسول خدا کا سن مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کی عمر چالیس سال تھی۔
حضرت خدیجہ سے شادی کے محرکات
بعض وہ لوگ جو ہر چیز کو مادی مفاد کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں انہوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے:
چونکہ حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کو تجارتی امور کے لیے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے پیغمبر اکرم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم یتیم و نادار تھے اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی شرافتمندانہ زندگی سے موافق تھے اسی لیے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا، اگرچہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔
اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو شامل تھے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا کی اور بعد میں حضرت خدیجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ذیل میں چند نکات بیان کرتے ہیں:
اول تو پیغمبر کی پوری زندگی ہمیں زہد و تقویٰ و معنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کی نظر میں دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اور آپ نے حضرت خدیجہ کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نہیں کیا۔
دوسرے اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  نے کی تھی نہ کہ رسول اکرم نے۔
اب ہم یہاں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
حضرت خدیجہ عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اور انہیں متقی و پرہیزگار شوہر کی تلاش تھی۔
دوسرے یہ کہ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ“ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش“ کے لیے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا چنانچہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا۔
تیسرے یہ کہ پیغمبر اکرم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے آپ کو سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی۔ اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول اکرم کو ضرور سفر پر روانہ کرتیں تاکہ مال و دولت میں اضافہ ہو سکے۔ اس کے برعکس حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا  نے اپنی دولت آنحضرت کے حوالے کر دی تھی تاکہ اسے آپ ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے رسولِ خدا سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے۔
اے میرے چچا کے بیٹے!
چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا تو میں تمہاری جانب مائل ہوئی اور شادی کے لیے پیغام بھیجا۔
پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے
حضر خدیجہ سلام اللہ علیھا سے رسول خدا کی شادی کے بعد حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام ملک شام سے اپنے ساتھ کچھ غلام لے کر آئے جن میں ایک آٹھ سالہ لڑکا زید ابن حارثہ بھی تھا، جس وقت حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  ان غلاموں کو دیکھنے کے لیے آئیں تو حکیم نے ان سے کہا کہ پھوپھی جان آپ ان غلاموں میں سے جسے بھی چن لیں گی وہ آپ ہی کو مل جائے گا(۲) حضرت خدیجہ نے زید کو چن لیا۔
جب رسول خدا نے زید کو حضرت خدیجہسلام اللہ علیھا  کے پاس دیکھا تو آپ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ غلام مجھے دے دیا جائے۔ حضرت خدیجہ نے اس غلام کو پیغمبر اکرم کے حوالے کر دیا۔ پیغمبر خدا نے اسے آزاد کرکے اپنا فرزند (متبنی) بنا لیا لیکن جب پیغمبر خدا پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو قرآن نے حکم دیا کہ انہیں متبنی نہیں صرف فرزند کہا جائے۔
جب زید کے والد ”حارث“ کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا یبٹا شہر مکہ میں رسول خدا کے گھر میں ہے تو وہ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا کہ ان کا بیٹا ان کو واپس دے دیا جائے۔ آنحضرت نے زید سے فرمایا:
ہمارے ساتھ رہو گے یا اپنے والد کے ساتھ جاؤ گے؟
اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد کے ساتھ واپس چلے جاؤ، حضرت زید نے پیغمبر اکرم کے پاس ہی رہنا پسند کیا۔ جب رسول اللہ پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو حضرت علی علیہ السلام کے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت پر ایمان لائے۔
رسولِ خدا نے ان کا نکاح پاک دامن اور ایثار پسند خاتون ام ایمن سے کر دیا جن سے ”اسامہ“ پیدا ہوئے اس کے بعد آپ نے اپنے چچا کی لڑکی ”زینب بنت حجش“ سے ان کی شادی کر دی۔
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت
شہر مکہ کے اس تاریخ ساز عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت باسعادت تھی، مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش واقعہٴ عام الفیل کے تیس سال بعد ہوئی، خانہ کعبہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش و تولد آپ کے عظیم و ممتاز فضائل میں سے ایک ہے۔ اس فضیلت کا نہ صرف شیعہ دانشوروں نے ذکر کیا ہے بلکہ اہلسنّت کے محدثین و مورخین بھی اس کے معترف ہیں۔
پیغمبر اکرم کے دامن میں تربیت
حضرت علی علیہ السلام نے بچپن اور شیرخوارگی کا زمانہ اپنے مہربان اور پاکدامن والدین حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد کی آغوش اور اس گھر میں بسر کیا جہاں نورِ رسالت اور آفتابِ نبوت تاباں تھا۔ حضرت ابو طالب کے اس نونہال پر حضرت محمد کی شروع سے ہی خاص توجہ و عنایت تھی، اسی لیے آپ نے حضرت علی علیہ اسلام کے ساتھ محبت و مہربانی کے سلوک اور تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
رسولِ خدا نے اسی پر ہی اکتفا نہ کی، بلکہ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی عمر کی چھ بہاریں دیکھ لیں، تو آپ انہیں اپنے گھر لے آئے اور بذاتِ خود ان کی تربیت فرمانے لگے۔
حضرت علی علیہ السلام سے بے پناہ شغف کی وجہ سے آپ انہیں اپنے سے ہرگز جدا نہیں کرتے تھے چنانچہ جب کھی آپ عبادت کے لیے مکہ سے باہر غارِ حراء میں تشریف لے جاتے تو حضرت علی علیہ السلام آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔
رسولِ اکرم کے زیر سایہ حضرت علی علیہ السلام کی جو تربیت ہوئی اس کی اہمیت و قدر و قیمت کے بارے میں خود حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ولقد علمتم موضعی من رسول اللہ ابالقرابتہ القریبة والمنزلة الخصیصہ وضعنی فی حجرہ وانا ولد یضمنی الی صدرہ و یکنفنی فی راشہ ویمسنی جسدہ و یشمنی عرفہ وکان یمضغ النبی ثم یلقینی… ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر اہ برفع کانی کل یوم اخلاقہ علما و یامرنی بالاقتداء بہ
”یہ تو تم سب ہی جانتے ہو کہ رسول خدا کو مجھ سے کیسی قربت تھی اور آپ کی نظروں میں میری کیا قدر و منزلت تھی، اس وقت جب میں بچہ تھا آپ مجھے اپنی گود میں جگہ دیتے اور سینے سے لگاتے، مجھے اپنے بستر پر اپنی جگہ لٹاتے، میں آپ سے بغل گیر ہوتا اور آپ کے جسم مبارک کی عطر آگیں بو میرے مشام کو معطر کر دیتی۔ آپ نوالے چبا کر میرے منہ میں رکھتے، میں پیغمبر اکرم کے نقش قدم پر اس طرح چلتا جیسے شیرخوار بچہ اپنی ماں کی پیروی کرتا ہے۔ آپ ہر روز اخلاق کا پرچم میرے سانے لراتے اور حکم فرماتے کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں۔“
معبود حقیقی سے انس و محبت
امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال، ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود جو ہمیشہ دامنگیر رہیں، نہایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔ آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش نہیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آپ ہر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غارِ حراء“ میں تنہا رہ کر عبادت خداوند میں گزارتے تھے۔Muhammad
جناب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ولقد کان مجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولایراہ غیر
”رسول خدا ہر سال کچھ عرصے کے لیے غار حراء میں قیام فرماتے، اس وقت میں ہی انہیں دیکھتا میرے علاوہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔“
پیغمبر اکرم کے آباء و اجداد سب ہی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔
اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں:
شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا کے والدین، آباؤ اجداد مسلمان ہی نہیں بلکہ سب ہی صدیقین تھے۔ وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء۔ ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذہبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
رسول اکرم کا ارشاد ہے:
لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الی ارحام التطھیرات
”میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ہوتا رہا۔“

0 comments:

Do Not Post Bad Comment

Recent Comments

Copyright © 2013 Bedaari E Ummat Service . WP Theme-junkie converted by Bloggertheme9
Blogger templates. Proudly Powered by Blogger.